۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ فلسطین چاہے دنیا کی بے حسی کا کتنا ہی شکار ہوجائے، مگر فلسطینیوں کے حوصلے ہمیشہ بلند رہیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کی معروف دینی اور سماجی شخصیت حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے عالمی یوم قدس کے موقع پرمظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونیوں کے ظلم و جور کے پیش نظر کہا کہ جہاں بھی ظلم ہو ہم احتجاج کرتے ہیں۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ حق کے غصب ہونے اور ظالموں کے ظلم و تشدد پر احتجاج کرنا عوام کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ ظلم کے خلاف خاموشی محض جرم ہی نہیں بلکہ سماجی اور اجتماعی فتنے کو دعوت دینے کے مترادف ایک قبیح عمل بھی ہے ۔یوم قدس صرف قدس سے متعلق نہیں ہےبلکہ یہ ساری دنیا کے مظلومین ومستضعفین کا ظالمین ومستکبرین کے ساتھ مقابلے کا دن ہے،یوم قدس اسلامی دنیا کے منافق چہروں اور قدس و فلسطین کے وفادار مسلمانوں کی شناخت و پہچان کا دن ہے۔

اہلبیت (ع) فاونڈیشن کے نائب سربراہ حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے حوزہ نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے گفتگو میں کہا کہ :آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے جو حالات زار ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور ان تمام مسائل و مشکلات کا جڑ اسرائیل اور اسرائیل نواز حکمراں ہیں جو مسند اقتدار پر براجمان رہنے کی خاطر اپنے صیہونی آقاؤں کے بنائے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

ہندوستان کی معروف دینی شخصیت تقی عباس رضوی نے کہا کہ مذکورہ بالا مطالب کے پس منظر میں کہا کہ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ اسرائیل؛ دنیا کا ترقی یافتہ ملک نہیں بلکہ پوری دنیا بالخصوص میڈیل ایسٹ میں ناامنی اور کشیدگی پھیلانے کا جڑ ہے۔

انکا کہنا تھا کہ آج فلسطین کے 85 سے 90 فی صد علاقے پر اسرائیل کا غیر قانونی اور ناجائز قبضہ ہے جو عالمی برادری باالخصوص عرب ممالک اور اقوام متحدہ کے لئے قابل غور لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین میں آئے دن قتل عام، دربدری، قید و بند، ظلم و نا انصافی، غربت و افلاس اور بھوک سے مرتے معصوم لوگوں کا درد و الم جسے دنیا کا میڈیا دکھانا بھی چاہے تو نہیں دکھاسکتا ہے... مگر بہرحال یہ طے ہے کہ اسرائیل؛ مظلوم فلسطینیوں کی آہوں کے شراروں کی لپیٹ میں ہے۔

تقی عباس رضوی کلکتوی نے مزید اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ: 27 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا فلسطین صرف مسجد الاقصیٰ کا میزبان ہی نہیں ہے بلکہ یہ وہی ارض مقدس ہے جہاں انبیاء کرام ؑکا مدفن ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار اقدس بھی ہے، یہ وہی بابرکت سرزمین ہے جس نے حضرت داؤد وحضرت سلیمان علیہم السلام جیسے جلیل القدر نبیوں کے قدم بھی چومے ہیں یہ وہی ملک فلسطین ہے جہاں سے سرور کونین پیغمبر آخرالزماں حضرت سرکار ختمی مرتبت صلى الله عليه و آلہ وسلم روح القدس کے ہمراہ سفر معراج کے لیے پابرکاب ہوئے، جہاں اسلام کی عظمت رفتہ کا نشان؛ قبلہ اول کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔

حجت‌الاسلام والمسلمین تقی عباس رضوی کلکتوی نے کہا کہ :یوں تو برطانوی استعمار نے مدت مدید سے اس سر زمین پر زمانے کے ام الخبائث صیہونیوں طاقتوں کو بسانے اور آباد کرنے کی سازشیں رچ رہے تھے جس کا منھ بولتا ثبوت 1839 میں پہلی بار بیت المقدس میں پہلا مغربی سفارت خانہ کھلا جو برطانیہ ہی کا تھا اور اس کا واحد مقصد یہودیوں کی خدمت گزاری تھی اور اس کا نتیجہ 15 /مئی 1948 میں آیا کہ جب طاغوتی طاقتوں کی جانب سے فلسطین کو اسرائیلی مملکت قرار دیا گیا!

مگر وہ دن دور نہیں جب اسی فلسطین کو صیہونیوں کا مدفن بننے کا اعزاز حاصل ہوگا اور بالکل اسی طرح جیسے تبطس رومی کے ہاتھوں 70 میں ذلیل و خوار ہوئے اور پھر دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کی تو 135 میں معادریان رومی بادشاہ کے ہاتھوں بے رحمی سے کچلے گئے؛انشاء اللہ عنقریب اب ان مظلوم فلسطینیوں کے ہاتھوں بھی یہ لوگ شکست سے دوچار ہوں گے اس لیے کہ ظلم کا انجام نہایت ہی بھیانک اور خوفناک ہوتا ہے....ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔

آخر میں مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی نے کہا کہ آج حقیقتا!مسئلہ فلسطین میں جو رمق باقی ہے وہ امام خمینی ؒ کی رہین منت ہےاس لئے کہ ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد حضرت امام خمینی نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعۃ المبارک کوعالمی یوم القدس قرار دیا اور امت اسلامی کو اسے منانے کی بھی بھرپور تاکید فرمائی۔انہوں نے اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو سرطانی جرثومے سے تشبیہ دی اور اس کے خلاف تمام وسائل سے لیس ہو کر امت کو اس کے خلاف جہاد کاسبق پڑھایا ۔اور اسی سبق کو آج جمہوریہ اسلامی ایران کی حریت پسند قوموں نے یاد رکھا اور پوری دنیا کے مظلوم و مستضعف سے محبت و ہمدردی خاص مشرق وسطی میں فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین آزاد کروانے کے لئے ان کی حمایت میں شانہ بشانہ کھڑی دکھتی ہے ۔

موصوف نے اپنی گفتگو کو حضرت امام راحلؒ کے شہرہ آفاق اس فقرے پر ختم کیا کہ:’’یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے؛ یہ اسلامی حکومت کا دن ہے۔میں یوم القدس کو اسلام اور رسول اکرم(ص) کا دن سمجھتا ہوں‘‘۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .